آپ نے ایسے کئی افسانے سنے ہوں گے جس میں کسی کے ہاتھ خزانہ لگ جاتا ہے۔ پھر اس کے رشتہ دار اپنا حصہ مانگتے ہیں۔ بات لڑائی جھگڑا تک پہنچ جاتی ہے اور خزانے کی خبر باہری لوگوں کو مل جاتی ہے۔ پھر جب بادشاہ یا زمیندار کو پتہ چلتا ہے تو وہ خزانے کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ یعنی لالچ اور جھگڑے میں ہاتھ آیا خزانہ دور ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ تلنگانہ میں ایک کسان کے ساتھ پیش آیا ہے۔
تلنگانہ میں ایک کسان جب کھیت کی میڑھ ٹھیک کر رہا تھا تو ایک مٹی کا گھڑا نظر آیا۔ اس نے کھول کر دیکھا تو 5 سونے اور 19 چاندی کے سکّوں کے علاوہ کچھ زیورات بھی رکھے تھے۔ سکّوں پر اردو زبان میں کچھ لکھا تھا جس سے اندازہ ہوا کہ سکے اور زیورات مغل دور کے ہو سکتے ہیں۔
کسان اس خزانے کو خاموشی کے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔ کسی طرح اس خزانے کی خبر اس کے بھائی کو ہوئی اور پھر وہ اپنا حصہ مانگنے لگا۔ جس کسان کو خزانہ ملا تھا اس نے کچھ بھی دینے سے منع کر دیا۔ معاملہ بزرگوں تک پہنچا کہ مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ لیکن یہ خبر گاؤں کے کئی لوگوں اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے افسران تک بھی پہنچ گئی۔ پھر کیا تھا، افسران موقع پر پہنچے اور خزانہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اب کسان بھائیوں کو لاکھوں روپے قیمت کا خزانہ ہاتھ سے جانے کا افسوس ہو رہا ہے۔