محمد صلی اللہ علیہ وسلم، یعنی کائنات کی محترم ترین شخصیت! جن سے بہتر انسان پر سورج طلوع نہیں ہوا۔ جو صرف اپنوں کی ہی نظر میں دنیا کی عظیم ترین شخصیت نہیں بلکہ غیروں نے بھی انھیں اسی مقام و مرتبہ پر متمکن پایا ہے۔ جن کی سیرت طیبہ قرآنی آیات کی عملی تفسیر ہے۔ جنھیں کتاب مبین نے اخلاق کے بلند ترین منصب پر فائز کیا۔ جن کا ذکر ’وَرَفعنا لک ذِکرک‘ اور جن کی ذات ’سراجاً منیرا‘ قرار پائی۔
اس مختصر سے کالم میں اُس محسن انسانیتؐ کی سیرت کو بھلا کس طور پر بیان کیا جائے، کہ جس کی امانت اور صداقت کی گواہی اس کے دشمنوں نے دی۔ جو یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ تھا۔ جس نے اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کو اپنے حسن اخلاق کا اسیر کیا۔ جس صاحب خلقِ عظیم کے اوپر سرزمین طائف میں پتھروں کی بارش کی گئی۔ جسم لہولہان ہوا اور آپؐ زخموں کی تاب نہ لا کر گر پڑے۔ ایسی حالت میں بھی آپؐ نے باشندگان طائف کے لیے رحمت کی دعائیں کیں۔
آپؐ ہی تھے جنھوں نے مظلومیت کی تصویر بنی عورت کو عزت و سرفرازی عطا کی۔ آپؐ نے 20 رمضان 8ھ کو فتح مکہ کے موقع پر اپنے خون کے پیاسے دشمنوں تک کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور ایک کالے کلوٹے حبشی غلام (حضرت بلال) کو اذان کے لیے خانہ کعبہ کی مقدس ترین عمارت پر کھڑا کر کے رنگ و نسل کے امتیاز کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)