مغل شہنشاہ اکبر کا بیٹا سلیم، جو بعد میں نورالدین محمد جہانگیر کے نام سے مشہور ہوا، اسے جانداروں، بالخصوص پرندوں سے بہت محبت تھی۔ ایک دن وہ شام کے وقت اپنے باغ میں کھڑا کبوتر کے جوڑے سے کھیل رہا تھا۔ اس کے بچپن کی ساتھی مہرالنساء اس کے ساتھ کھڑی تھی۔ اسی وقت ایک ملازم نے آ کر کہا کہ شہزادہ سلیم کو بادشاہ یاد فرما رہے ہیں۔
سلیم مہرالنساء کی جانب مڑا اور اسے کبوتروں کا دھیان رکھنے کو کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ سلیم کے جانے کے بعد مہرالنساء نے کبوتر کو آسمان کی جانب تکتے ہوئے دیکھا اور مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل گئی۔ بادشاہ سے مل کر جب شہزادہ سلیم باغ میں واپس آیا تو وہاں ایک کبوتر کو غائب پایا۔ اس نے حیران ہو کر مہرالنساء کی جانب دیکھا اور دریافت کیا کہ ’’دوسرا کبوتر کہاں گیا؟‘‘
مہرالنساء نے آہستہ سے کہا ’’وہ تو اڑ گیا۔‘‘
شہزادہ سلیم نے برہم ہوتے ہوئے پوچھا ’’کیسے اڑ گیا؟‘‘
مہرالنساء نے جواب دیا ’’اس طرح…‘‘، اور یہ کہتے ہوئے دوسرے کبوتر کو بھی ہوا کے حوالے کر دیا۔ کبوتر فضا میں آزاد اڑنے لگا۔ یہ دیکھ کر مہرالنساء کھلکھلا کر ہنس پڑی، اور کہا ’’سلیم کیا تمھیں نہیں لگتا کہ یہ پرندے آسمان میں آزادانہ پرواز کرتے ہوئے زیادہ خوبصورت لگتے ہیں!‘‘
سلیم نے مہرالنساء کی بات سن کر نظریں جھکا لیں۔
پرندوں سے والہانہ محبت کرنے والی یہی مہرالنساء آگے چل کر مغل بادشاہ جہانگیر (سلیم) کی ملکہ بنی اور نور جہاں کے نام سے مشہور ہوئی۔
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)