سپریم کورٹ میں قومی اقلیتی کمیشن کی تشکیل کو چیلنج دینے والی ایک عرضی داخل کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ مرکز کو نوٹس جاری کیے تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن ابھی تک جواب داخل نہیں کیا گیا۔ اس عمل پر سپریم کورٹ نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور 31 جنوری کو سماعت کے دوران مرکزی حکومت پر 7500 روپے کا علامتی جرمانہ عائد کر دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اقلیتی کمیشن کی تشکیل کو چیلنج دینے والی عرضی بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے داخل کی ہے۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہر ریاست میں آبادی کے حساب سے اقلیتوں کا تعین کیا جائے۔ عرضی دہندہ نے 1992 کے قومی اقلیتی کمیشن ایکٹ اور 2004 کے قومی اقلیتی کمیشن ایجوکیشن انسٹی ٹیوشن ایکٹ کو چیلنج کیا ہے۔
عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ کئی ریاستوں میں ہندو اقلیت میں ہیں لیکن پھر بھی سرکاری منصوبوں کو نافذ کرتے وقت انھیں اقلیتوں کے لیے طے کردہ فائدے نہیں ملتے۔ مثلاً لداخ میں ہندو آبادی 1 فیصد، میزورم میں 2.75 فیصد، لکشدیپ میں 2.77 فیصد، کشمیر میں 4 فیصد، ناگالینڈ میں 8.74 فیصد ہے۔ اس عرضی پر سپریم کورٹ نے 28 اگست 2020 کو نوٹس جاری کر مرکز سے جواب مانگا تھا۔ فروری 2021 میں مرکز سے دوبارہ جواب مانگا گیا، اور پھر 7 جنوری 2022 کو عدالت عظمیٰ نے حکومت کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیا تھا۔