ہندوستانی ریاست کرناٹک کے کچھ تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کا معاملہ اب بیرون ممالک میں بھی موضوع بحث ہے۔ خصوصاً 8 فروری کو ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگا رہے بھگوا بریگیڈ کے سامنے باحجاب طالبہ بی بی مسکان خان کا بلاخوف ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگانے والی ویڈیو نے سبھی کی توجہ ’حجاب تنازعہ‘ کی طرف کھینچی ہے۔
اس تعلق سے پاکستان کے مشہور انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں لکھا ہے ’’نریندر مودی کی ہندوتوادی حکومت کے تحت مسلموں کے خلاف استحصال بڑھا ہے اور اس واقعہ نے اقلیتوں میں خوف پیدا کیا ہے۔‘‘ ایک دیگر پاکستانی اخبار ’پاکستان ٹوڈے‘ نے لکھا ہے ’’آر ایس ایس کے بھگوا پہنے غنڈوں نے حجاب پہنی ایک تنہا لڑکی کو گھیرا، اس سے ہندوتوادیوں کی بزدلی کا انکشاف ہوتا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں ’پی ٹی وی نیوز‘ نے ٹوئٹر پر مسکان کی علامتی تصویر پوسٹ کر اس کی بہادری کی تعریف کی۔
ترکی کے سرکاری براڈکاسٹر ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نریندر مودی کی نیشنلسٹ حکومت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز تقریریں بڑھی ہیں۔ مودی کے برسراقتدار ہونے کے بعد سے ان شدت پسندوں کو طاقت ملی جو ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے مشہور اخبار ’ڈھاکہ ٹریبیون‘ اپنی خبر میں لکھتا ہے کہ بی جے پی حکمراں کرناٹک اور پارٹی کے کئی لیڈروں نے حجاب پر پابندی کی حمایت کی ہے۔ اس واقعہ نے اقلیتوں میں خوف پیدا کر دیا ہے۔