افغانستان پر قبضہ کے بعد طالبانی حکومت کے کئی اقدام کی عالمی سطح پر تنقید ہوئی ہے۔ اب طالبان حکومت نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جسے ہندوستان کو اُکسانے کی کوشش ٹھہرایا جا رہا ہے۔ دراصل افغانستان نے اپنے ایک فوجی گروپ کا نام ’پانی پت‘ رکھا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک خاص مقصد پنہاں ہے۔ دراصل پانی پت کی تیسری لڑائی جب 1761 میں لڑی گئی تھی تو افغان حکمراں احمد شاہ دُرانی نے مراٹھوں کو شکست دی تھی۔ یہ داستان اب افغانستان کی مساجد میں زور و شور سے بیان کیا جا رہا ہے۔
’ٹائمز آف انڈیا‘ میں اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’پانی پت آپریشن یونٹ‘ کی تعیناتی افغانستان کے شمالی علاقہ نانگرہار میں کی جائے گی۔ ’آمج نیوز‘ نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں اس کی تصدیق کی ہے۔ ٹوئٹ میں ایک تصویر شیئر کی گئی ہے جس میں ایک فوجی یونیفارم پہنے دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں امریکی رائفل بھی موجود ہے۔
کچھ میڈیا رپورٹس میں اس بات کا تذکرہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی حمایت میں کرنے کے لیے افغانستان کی طالبانی حکومت لوگوں کو احمد شاہ دُرانی کے قصے سناتی ہے۔ ان لوگوں کو مساجد میں پانی پت کے جنگ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیر سے لے کر فلسطین تک پانی پت کی کہانی مشہور تھی۔ گویا کہ افغانستان اس تاریخی واقعہ کا تذکرہ کر ہندوستان کو اُکسانے کی کوشش کر رہا ہے۔