ہندوستان میں بڑھتی بے روزگاری کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پھر بھی حکمراں جماعتیں اس تعلق سے وعدے تو خوب کرتی ہیں لیکن اس کو وفا کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھاتیں۔ برسراقتدار پارٹی کے اس رویہ سے نوجوانوں میں غصے کی لہر تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا نظارہ اتر پردیش میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب ایک خاتون رپورٹر اتر پردیش کے نوجوانوں سے بے روزگاری پر بات کرنے پہنچی۔ اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے، ایسے میں جب ’ڈی ڈبلیو‘ کی رپورٹر نمیشا جیسوال نے نوجوانوں کی طرف مائک بڑھایا تو اپنا داستانِ غم سناتے ہوئے کچھ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
نمیشا سے بات کرتے ہوئے نوجوانوں نے بی جے پی حکومت کے تئیں سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ ایک نوجوان نے کہا کہ ’’ایسے ہی بے روزگاری بڑھتی رہی تو ایک دن نہ تو ہم پڑھنے لائق رہیں گے، نہ ہمارے بچے۔‘‘ ایک دیگر نوجوان نے کہا ’’ہم بھی ہندو کے بیٹے ہیں، لیکن مذہب سے کوئی کام چلا ہے۔ ہم کمائیں گے تو مندر میں چڑھاوا دے سکتے ہیں، لیکن مندر سے روزگار نہیں حاصل کر سکتے۔‘‘
بیشتر ہندو نوجوانوں نے بی جے پی کی ہندو-مسلم منافرت والی سیاست پر حملہ کیا۔ ایک نے کہا ’’مندر سے کبھی پیٹ بھرا ہے؟ بھوکے پیٹ مندر میں بٹھا دیا جائے تو کیا دل لگے گا۔‘‘ ایک نوجوان کہتا نظر آیا کہ ’’ہندو اور مسلمان کے بیچ لڑائی کرا رہے ہیں، اس سے ہم لوگوں کو کیا فائدہ ہو رہا۔ ہمیں تو روزگار چاہیے۔‘‘