اردو صحافت پر ملکی و غیرملکی مسائل سے آنکھیں چرانے کا الزام کبھی عائد نہیں کیا جا سکتا۔ جام جہاں نما سے لے کر موجودہ اخبارات و رسائل نے ہمیشہ وطن پرستی کا ثبوت دیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اردو صحافت کا بنیادی انحصار ترجمے کی وجہ سے انگریزی صحافت پر رہا ہے۔ لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اردو صحافت کے دائرہ کار اور دیگر ذرائع میں توسیع ہونے کے ساتھ اس نے اپنا ایک منفرد رنگ بھی اختیار کیا۔
اب کئی اعتبار سے اردو صحافت آزاد، خود مختار اور خود کفیل ہو گئی ہے۔ کسی بھی زبان کی صحافت اگر 200 برسوں کا سفر طے کر لے تو پھر وہ کبھی مر نہیں سکتی۔ اردو صحافت ضرور نشیب و فراز سے دو چار رہی ہے لیکن اپنے معیار اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے مشکل قدم اٹھانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹی ہے۔
جہاں تک 200 سال کے درمیان اردو صحافت کے کردار و عمل کی بات ہے تو اس نے آغاز سے ہی عوام کے ذہنی پرواز کو وسعت دینے اور انہیں جذبہ حب الوطنی سے سرشار کرنے کا اہم فریضہ انجام دیا ہے۔ نیز افراد کو اپنے حقوق کی حصولیابی اور تہذیب کے نئے اسباق کا درس بھی بہتر انداز میں دیا ہے۔ اس درمیان اردو صحافت ضرور نقصان اٹھاتی رہی ہے تاہم اس نقصان سے تعمیری مشن کو فائدہ پہنچا ہے۔ آخر میں یہ کہوں گا کہ اردو صحافت کا مستقبل پہلے سے زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر مشتاق صدف ’تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ، تاجکستان‘ میں ویزیٹنگ پروفیسر ہیں اور روزنامہ راشٹریہ سہارا و نئی دنیا میں برسوں صحافتی ذمہ داری نبھا چکے ہیں)