اردو کے خلاف پورے ملک میں جاری متعصبانہ رویہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس تعلق سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) لیڈر اور رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل نے 28 مارچ کو لوک سبھا میں آواز بلند کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’آج اس ملک کے اندر اردو پوری طرح سے ختم کی جا رہی ہے۔ ایک طرف اردو کے اسکول بند ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف سرکاری اشتہارات نہیں ملنے کی وجہ سے اردو اخبارات بھی بند کیے جا رہے ہیں۔‘‘
ہندوستان میں اردو کی تاریخ اور اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امتیاز جلیل نے کہا کہ ’’ہندی اور اردو کا رشتہ اس ملک کے اندر ایسا ہے جیسے ماں اور ماسی کا۔ اور ہماری تہذیب و ہماری ثقافت کہتی ہے کہ ہمیں ہندی اور اردو کو ٹھیک اسی نظریہ سے دیکھنا چاہیے جیسے اپنی ماں اور ماسی کے رشتے کو دیکھتے ہیں۔‘‘
موجودہ حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امتیاز جلیل آگے کہتے ہیں ’’ہمیں ایسا لگتا ہے کہ آج اس ملک کے اندر اردو کو بھی نقاب پہنا کر، حجاب پہنا کر آگے بڑھنے سے روکا جا رہا ہے۔ ہم التجا کرتے ہیں کہ اردو زبان کو مذہب کے چشمے سے نہ دیکھا جائے۔ اردو نے ہمارے ہی ملک میں جنم لیا ہے تو پھر کیوں آج اردو اخبارات اور اردو اسکول بند کیے جا رہے ہیں؟ اردو زبان کو کیوں ہم الگ نظریہ سے دیکھ رہے ہیں؟ آپ کے سینے میں دل ہے، اور دل دھڑکتا ہے تو اردو زبان کو ختم مت ہونے دیجیے۔‘‘