کرناٹک ان دنوں ہندوتوا کی تجربہ گاہ بن گیا ہے جہاں روزانہ مسلم منافرت کی نئی عبارت لکھی جا رہی ہے۔ اس ریاست میں ایک تنازعہ ختم نہیں ہو رہا ہے کہ دوسرا تنازعہ سامنے نظر آ جاتا ہے۔ اس کی شروعات حجاب تنازعہ سے ہوئی تھی جس پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ اس حجاب تنازعہ کے بعد حلال گوشت کا تنازعہ شروع ہوا اور مسجدوں میں لاؤڈاسپیکر سے اذان بند کرائے جانے کے مطالبہ نے بھی زور پکڑا۔ مندروں کے میلوں میں مسلم دکانداروں پر لگائی گئی پابندی بھی خوب سرخیوں میں رہی۔ اب ’کیب تنازعہ‘ سامنے آیا ہے جو مسلم منافرت کی ایک نئی شکل ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کرناٹک میں ایک ہندوتوا تنظیم ’بھارت رکشنا ویدیکے‘ نے ہندوؤں سے گزارش کی ہے کہ وہ مسلم کیب، ٹور اینڈ ٹریول آپریٹرس کی خدمات نہ لیں۔ یعنی مسلم کیب ڈرائیوروں کے بائیکاٹ کی اپیل ہندو سماج سے کی گئی ہے۔ ہندوتوا تنظیم کے اراکین نے بنگلورو کے کئی گھروں کا دورہ بھی کیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ مسلم ڈرائیوروں کا بائیکاٹ کریں۔ خصوصاً مندروں اور تیرتھ یاتراؤں پر جانے کے دوران مسلم ڈرائیوروں کو ساتھ نہ رکھنے کی اپیل کی گئی ہے۔
بھارت رکشنا ویدیکے چیف بھرت شیٹی نے اس سلسلے میں کہا کہ جب ہم مندروں یا تیرتھ یاترا پر جاتے ہیں تو گوشت نہیں کھاتے۔ ایسے میں کسی ایسے شخص کو وہاں لے جانا مناسب نہیں جو ہمارے دیوی-دیوتاؤں کو نہیں مانتا۔ شیٹی کا کہنا ہے کہ ’’جیسے وہ ہمیں کافر کہتے ہیں، ویسے ہی ہمارا مذہب بھی ہمیں پیارا ہے۔‘‘