قرآن یاد کرنے سے زیادہ قرآن کو یاد رکھنا مشکل ہے۔ حافظ قرآن بھی ایک انسان ہوتا ہے۔ سہو و نسیان کا مسئلہ ان کے ساتھ بھی درپیش آتا ہے۔ اس کی بھی یادداشت عام انسانوں کی طرح گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ متاثر ہوتی ہے۔ لہذا اس بات کا خدشہ یقینی ہے کہ یاد کرنے کے بعد چند سالوں میں بھول جائے۔
چونکہ زمانۂ صحابہ میں ذوق عبادت بہت زیادہ تھی وہ حضرات نوافل میں قرآن کی تلاوت بکثرت کیا کرتے تھے، اس لئے اس کا خوف نہیں تھا۔ لیکن بعد میں جیسے جیسے جیسے ذوق عبادت میں کمی آتی گئی یہ خدشہ بڑھتا گیا۔ لیکن اس خدشہ کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اللہ نے اپنے ایک محبوب بندہ کے ذریعہ اس کا انتظام فرمایا تھا، چنانچہ مسلمانوں میں عموماً اور حفاظ کے خصوصاً ذوق عبادت میں کمی آ جانے کے بعد بھی وہ مسئلہ درپیش نہیں آیا جس کی بجا طور پر توقع کی جا سکتی تھی۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کو موجودہ شکل میں منضبط کیا ہے۔ یہ انہیں کا اجتہاد تھا کہ نماز تراویح میں قرآن کریم کی ترتیب سے از اول تا آخر قرأت کی جائے۔ وہ زمانہ تھا اور یہ زمانہ ہے بغیر کسی انقطاع کے بتسلسل یہ طریقہ رائج ہے۔ اس کا حفاظت قرآن کے حوالے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ حفاظ سال میں ایک بار چونکہ تراویح سناتے ہیں اس لیے وہ از سر نو یاد کرتے ہیں۔ گویا ان کے حفظ قرآن کی سالانہ تجدید ہوتی رہتی ہے۔
(تحریر: محمد حفظ الرحمن)