جہانگیر پوری میں گزشتہ 16 اپریل کو فرقہ وارانہ تشدد نے ماحول کشیدہ کر دیا تھا، اور 20 اپریل کی صبح ایم سی ڈی کے ذریعہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی نے غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ جس مقام پر تشدد ہوا تھا، ٹھیک اسی جگہ سینکڑوں پولس فورس کی نگرانی میں ایم سی ڈی نے کئی دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر سے گرا دیا۔ اس دوران مسجد کے ایک چھوٹے حصے پر بھی بلڈوزر چلایا گیا جس سے مسلم طبقہ میں ناراضگی ہے۔
جہانگیر پوری میں ایک طرف بلڈوزر چل رہا تھا اور دوسری طرف اسے رکوانے کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی ٹیم سپریم کورٹ پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے فوراً اس کارروائی کو روکنے کا حکم سنایا۔ اس کے باوجود کافی دیر تک بلڈوزر سے انہدامی کارروائی چلتی رہی۔ یہ عمل تب رکا جب برندا کرات کورٹ کا آرڈر لے کر جہانگیر پوری پہنچیں اور کارروائی پر سخت ناراضگی ظاہر کی۔
عدالتی حکم کے باوجود بلڈوزر چلائے جانے کو کانگریس لیڈر ششی تھرور نے جرم قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’متاثرین کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا اور ان کے مکان و دکان توڑ دیے گئے۔ یہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔‘‘ دوسری طرف آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے جہانگیر پوری کا دورہ کیا لیکن انھیں پولس نے مسجد کے پاس روک دیا۔ اس سے قبل انھوں نے کہا کہ ’’قانونی طور پر نیا بلڈوزر جلوس نکالا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اجتماعی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے… یہ ہدف بنا کر کی گئی تباہی ہے۔‘‘