وطن عزیز کا ایک چھوٹا سا پسماندہ صوبہ ’جھارکھنڈ‘ ہے جس کے وسط میں ایک ضلع ہے ’جامتاڑا‘۔ راقم الحروف کی نسبت اسی سرزمین کی طرف منسوب ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی غیر قوم کے بالمقابل بہت کم ہے، اس کے باوجود مساجد و مدارس کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ جامتاڑا کے گاؤں جیروا میں بھی کئی مساجد ہیں جن میں ایک مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس مسجد کا نام ہے ’جامع مسجد، جیروا‘ جو کہ مسجد کی پیشانی پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے۔
جامع مسجد، جیروا ایک منزلہ ہے اور مسجد کے تین جانب، یعنی مشرق، مغرب و جنوب میں مسلمانوں کی آبادی ہے۔ شمال میں ایک کچی راہ ہے جو آگے جا کر اصل راستے سے جڑتی ہے۔ مسجد میں تمام طرح کی سہولیات میسر ہیں اور بیک وقت 300 سے زائد افراد باجماعت نماز ادا کر سکتے ہیں۔
اس مسجد سے میری بچپن کی بے شمار یادیں اور خاص لمحات وابستہ ہیں۔ میں نے ابتدائی تعلیم استاذ محترم مولانا سفیر الدین صاحب سے اسی مسجد کی چہار دیواری اور احاطے میں حاصل کی ہے۔ بعد میں کسی مصلحت کے تحت یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ لہذا آج بھی جب کبھی نماز ادا کرنے کے لئے اس مسجد میں جاتا ہوں تو بچپن کی خوبصورت یادیں دل و دماغ پر گردش کرنے لگتی ہیں۔ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی میں اپنے بچپن کی یادوں میں کھو جاتا ہوں۔ ان یادوں کو میں اپنی زندگی کے خوبصورت اور بیش بہا لمحات تصور کرتا ہوں۔
(تحریر: عبدالودود، جامعہ ملیہ اسلامیہ)