رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص شبِ قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں‘‘ (بخاری ومسلم)۔ یہ بھی فرمایا کہ ’’شب قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو‘‘ (بخاری)۔ یعنی شب قدر کی تلاش 21ویں، 23ویں، 25ویں، 27ویں اور 29ویں راتوں میں کرنی چاہیے۔
حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضورِ اکرمؐ سے پوچھا کہ ’’یا رسولؐ اللہ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے، تو کیا دعا مانگوں؟ حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا- پڑھو، اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی (اے اللہ تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو، پس مجھے بھی معاف فرما دے۔‘‘ (مسند احمد، ابن ماجہ، ترمذی)
شبِ قدر کی دو اہم علامتیں:
شبِ قدر کی دو اہم علامتیں کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔ اس کے مطابق ایک علامت یہ ہے کہ رات نہ بہت زیادہ گرم اور نہ بہت زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔ اور دوسری علامت یہ ہے کہ شبِ قدر کے بعد صبح کو سورج کے طلوع ہونے کے وقت سورج کی شعاعیں یعنی کرنیں نہیں ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اختلاف مطالع کے سبب مختلف ملکوں اور شہروں میں شب قدر مختلف دنوں میں ہو، تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔ کیونکہ ہر جگہ کے اعتبار سے جو رات شبِ قدر قرار پائے گی، اس جگہ اسی رات میں شب قدر کی برکات حاصل ہوں گی، اِن شاء اللہ۔