شبِ قدر کون سی رات ہے، طاق راتوں میں سے ایک یا 25ویں یا 27ویں یا 29ویں؟ یہ سارے جوابات صحیح ہیں کیونکہ ایک نہیں کئی صحیح احادیث میں ان کی سند موجود ہے۔ لیکن اس زاویہ سے سوچیے کہ اگر چاند کی تاریخوں میں گڑبڑ ہو جائے، جیسے کہ اس سال خود سعودی عرب میں ہوا تو؟ ایک ہی شہر میں دو-دو چاند ہو جائیں جیسا کہ مسلکوں کے اختلاف کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو؟ آپ کون سی تاریخ پر اعتبار کریں گے۔ کیا فرشتے انسانوں کو غلطی کا فائدہ دیتے ہوئے اپنی تاریخ تبدیل کر لیں گے؟ یا اگر کوئی بیماری یا کسی اور وجہ سے شبِ قدر سے محروم ہو جائے تو؟ پھر یہ بھی حدیث ہمیں ملتی ہے کہ شبِ قدر کی تاریخ ہر سال بدلتی ہے۔ پھر اب آپ یہ بتایئے شبِ قدر کا تعیّن کیسے کیا جائے گا؟
اس کا ایک ہی حل ہے۔ وہ حل ہمیں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ملتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی حدیث ہے کہ شبِ قدر کو آخری عشرے میں تلاش کرو (بخاری و مشکوٰۃ)۔ فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرے میں داخل ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازوں میں انہماک اس قدر شدید ہو جاتا کہ ہم سال تمام یہ کیفیت نہیں دیکھتے۔ آخری عشرے میں گویا آپ کمر کس لیتے۔ احیا اللیل یعنی تمام رات جاگتے اور ایقذا اہلہ یعنی اپنے بیوی-بچوں کو بھی اٹھاتے۔ پتہ یہ چلا کہ آپؐ خود اکیلے نہیں بلکہ گھر والوں کو بھی اس رات عبادت کی ترغیب دیتے۔
(بشکریہ ڈاکٹر علیم خان فلکی)