ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا شمار تاریخ ہند کے ان عظیم قومی رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے مادر علمی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تعمیر و تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اپنے وقت کے مشہور معالج ڈاکٹر انصاری ہماری قومی تحریک آزادی کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ آپ کو کانگریس اور لیگ دونوں کے سیاسی حلقوں میں یکساں طور پر احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ انھوں نے سنہ 13-1912 میں ہوئی بلقان کی مشہور جنگ میں ترکی فوج کو طبی امداد پہنچانے والی ایک میڈیکل ٹیم کی قیادت بھی کی۔
مسیح الملک حکیم اجمل خان کی وفات کے بعد آپ کو دوسرا امیر جامعہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر انصاری جب تک امیر جامعہ رہے ان کا بنیادی نصب العین جامعہ کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا تھا۔ وہ قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ ان کے پاس ہر ماہ کسی نہ کسی طالب علم کا خط آتا جس میں کتابوں اور فیس وغیرہ کے لیے مدد کی درخواست ہوتی، اور ڈاکٹر انصاری نہایت خاموشی کے ساتھ پیسے منی آرڈر کر دیتے۔ مختلف اسکولوں-کالجوں میں سینکڑوں ایسے طالب علم تھے جن کی تعلیم کا خرچ آپ برداشت کرتے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ بقول رشید احمد صدیقی:
’’وہ محتاجوں کے ہی مددگار نہ تھے بلکہ ان لوگوں کی آن بان اور وضع داری کے بھی کفیل تھے جن کو آسیائے گردش ایام برابر پیش کی جاتی تھی۔‘‘
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، استاذ، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ)