مرکزی حکومت کے ذریعہ جی ایس ٹی کو لے کر کیے گئے نئے فیصلے سے عوام میں مایوسی ہے۔ ایسے وقت میں جب ہندوستان ’جی ایس ٹی‘ کی پانچویں سالگرہ منا رہا ہے، زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پر بھی ٹیکس کی بندش لگا دی گئی ہے، یعنی اسے مہنگا کیا جا رہا ہے۔ سوچیے کہ آپ کہیں گھومنے گئے اور شہد کے مرمرے کھا رہے ہیں، تو اس پر ٹیکس دیجیے۔ کچھ ذائقہ دار کھانے کا دل کرے اور برانڈ والا پنیر خریدنے جائیں تو اس پر ٹیکس دیجیے۔ پیکنگ والا دہی خریدیے تو بھی ٹیکس ادا کیجیے۔ یعنی بنیادی ضروریات کی جن چیزوں کو شروع میں جی ایس ٹی کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا، ان پر اب جی ایس ٹی ادا کرنا ہوگا۔
حیرانی اس بات پر ہے کہ اسپتال میں مریض اگر روزانہ 5000 روپے سے زیادہ کرایہ کے روم میں رہتا ہے، تو اسے بھی جی ایس ٹی دینا ہوگا۔ نوین کمار پانڈے کی ایک تحریر ’نوبھارت ٹائمز‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’عوامی فلاح کے لیے کام کرنے والی ریاست سے امید کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کی زندگی آسان کرے گی، نہ کہ اسپتال کے اندر بھی ٹیکس کی دکان کھول کر بیٹھ جائے گی۔ لیکن کیا کہیں گے، حکومت ہے اور جو ہمارے یہاں حکومت کا نظام ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں ہی۔ جب چھوٹی چھوٹی خواہشات پر ٹیکس کی بندشیں لگائے جانے پر سوال پوچھے جائیں گے تو مرکزی حکومت ریاستوں پر، اور ریاستی حکومتیں مرکز پر ٹھیکرا پھوڑیں گی۔‘‘