آسام میں گزشتہ 5 جولائی کو ہیمنت بسوا سرما کابینہ نے 5 مسلم قبائلیوں، یا یوں کہیں کہ 5 مسلم طبقات کو ’سودیشی‘ آسامی مسلمان کی شکل میں منظوری دے دی۔ بی جے پی حکومت کے اس فیصلہ کے بعد آسام میں ایک خوف کا عالم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی مسلم مخالفت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اور ان کے تازہ فیصلے نے مسلمانوں کو 2 حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس فیصلہ کے دور رس سیاسی و سماجی اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔
دراصل 2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 1 کروڑ 7 لاکھ ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آسام حکومت نے جن 5 مسلم قبائلیوں (گوریا، موریا، دیسی، جولاہا اور سید) کو ’سودیشی‘ کا درجہ دیا ہے ان کی مجموعی تعداد تقریباً 40 لاکھ ہے۔ اب سوچیے کہ 67 لاکھ مسلمانوں کو ’باہری‘ ظاہر کر دیا گیا اور ان سے ووٹنگ کا حق چھین لیا گیا تو آسام کی سیاست پر کتنا گہرا اثر پڑے گا۔
لوگ آسام حکومت کے مذکورہ فیصلہ کو سی اے اے-این آر سی سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ ان لوگوں کو نشان زد کرنے کے عمل کا حصہ ہے جو غیر قانونی طریقے سے بنگلہ دیش سے آسام میں داخل ہوئے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے اپنے فیصلے کو آسامی مسلمانوں کے مفاد میں بتایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے آسامی مسلمانوں کو سرکاری منصوبوں کا فائدہ بہتر انداز میں مل سکے گا۔