سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ ملک کی مختلف ریاستوں میں لگاتار چھاپہ ماری ہو رہی ہے۔ کہیں سیاسی لیڈران کے گھر سے کروڑوں روپے برآمد ہو رہے ہیں، تو کہیں کاروباریوں کے یہاں سے نقدی مل رہی ہے۔ کچھ پر بدعنوانی کے الزامات عائد کر جانچ شروع ہو گئی ہے، تو کچھ کو حراست میں لے کر پوچھ تاچھ جاری ہے۔ اس درمیان تمل ناڈو کانگریس اقلیتی ڈپارٹمنٹ کے جنرل سکریٹری محمد مزمل نے کہا ہے کہ بڑے پیمانے پر بدعنوانی نقد سے نہیں ہوتی، اس کے لیے دوسرے طریقے استعمال ہوتے ہیں۔
محمد مزمل کے مطابق بڑی سطح پر بدعنوانی کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ چھوٹے سرمایہ کے ساتھ کمپنی بنائی جائے۔ پھر کمپنی کے نام پر جائیداد خریدیں۔ اس پراپرٹی کی قیمت 100 کروڑ روپے ہو سکتی ہے۔ پھر جب کسی کو رشوت دینا ہو تو ہولڈنگ کمپنی کے 100 فیصد شیئر بیچ دیں۔ چونکہ کمپنی رئیل اسٹیٹ اثاثہ کی مالک ہے، اثاثہ کمپنی کے نئے ’مالک‘ کو منتقل ہو جاتا ہے اور اسٹامپ ڈیوٹی و رجسٹریشن فیس بھی نہیں دینی پڑتی۔
محمد مزمل کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتی ہیں کہ بدعنوانی کا ذمہ دار نقد ہے، حالانکہ ایسا پہلے ہوتا تھا، اب نہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’لبرلائزڈ ریمیٹنس اسکیم کے تحت کوئی بھی ہر سال 2,50,000 امریکی ڈالر بیرون ملک بھیج سکتا ہے۔ اس طرح چار افراد کا خاندان سرمایہ کاری کے لیے 10,00,000 امریکی ڈالر بھیج سکتا ہے، یعنی سالانہ تقریباً 8 کروڑ روپے۔ اور یہ سہولت مودی جی نے 2014 سے فراہم کی ہے۔‘‘