پاکستان کے ایک چڑیا گھر نے آئندہ 11 اگست کو اپنے یہاں موجود درجن بھر شیروں اور باگھوں کی نیلامی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ حیران کرنے والا اس لیے ہے کیونکہ جانوروں کو ایک چڑیا گھر سے دوسرے چڑیا گھر منتقل کرنے کا رواج تو عام ہے، لیکن جانور کی بولی لگانا کئی معنوں میں قابل اعتراض ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور کے سفاری چڑیا گھر کی طرف سے شیروں اور باگھوں کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہاں زیادہ جانوروں کے لیے جگہ نہ ہونے کی بات کہی جا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت چڑیا گھر میں 29 شیر، 6 باگھ اور 2 جیگوار موجود ہیں۔ چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر تنویر احمد جنجوا کا کہنا ہے کہ ’’نیلامی سے حاصل رقم کے ذریعہ خالی جگہ کی تعمیر ہو سکے گی اور ان (نیلامی والے) جانوروں کو کھلانے والے گوشت کا خرچ بھی نہیں اٹھانا پڑے گا۔‘‘ یہ بیان پاکستان میں موجود معاشی بدحالی کی طرف واضح نشاندہی کر رہا ہے۔
شیروں اور باگھوں کی نیلامی والی خبر نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اپنی طرف کھینچی ہے۔ ماحولیات اور جانوروں کی حفاظت کے لیے کام کرنے والے ادارہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ جانوروں کی تعداد بڑھنے سے روکنے کے لیے مادہ شیرنیوں کی نس بندی کی جا سکتی ہے، یا انھیں مانع حمل دیا جا سکتا ہے۔ ادارہ سے منسلک عظمیٰ خان کہتی ہیں ’’جب چڑیا گھر جیسے ادارے جانوروں کی قیمت طے کرتے ہیں تو یہ واضح طور پر کاروبار ہوتا ہے۔‘‘