کیرالہ ہائی کورٹ نے 25 اگست کو ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ عدالتیں کسی مسلم شخص کو طلاق دینے سے نہیں روک سکتیں، اور نہ ہی انھیں ایک سے زیادہ شادی کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ مسلم قانون میں طلاق اور ایک سے زیادہ شادی کی اجازت ہے۔ اگر اس سے روکا گیا تو یہ ہندوستانی آئین کے شق 25 کی خلاف ورزی ہوگی۔
دراصل جسٹس اے محمد مشتاق اور جسٹس سوفی تھامس کی دو رکنی بنچ ایک مسلم شخص کی اس عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں بیوی کو طلاق دینے پر فیملی کورٹ کے ذریعہ روک لگانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ فیملی کورٹ نے مسلم مرد کے دوسری شادی کرنے کے خلاف خاتون کی درخواست کو منظور کر لیا تھا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے ان دونوں احکام کو خارج کر دیا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ فیملی کورٹ مسلم مرد کو طلاق دینے اور دوسری شادی کرنے سے نہیں روک سکتا، ایسا کرنا بالکل غلط ہوگا۔
دو رکنی بنچ نے کہا کہ اگر طلاق یا کوئی مذہبی عمل پرسنل لاء کے مطابق نہیں ہوتا تو ایکٹ کے بعد اسے کورٹ آف لاء میں چیلنج پیش کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ کوئی عدالت کسی شخص کو اسے کرنے سے نہیں روک سکتی ہے۔ بنچ نے کہا کہ ایسے معاملوں میں عدالت کے اختیارات محدود ہیں۔ مسلم مردوں کو ایک وقت میں ایک سے زائد شادی کرنے کا حق پرسنل لاء کے تحت ملا ہوا ہے۔