انسان کی حالت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ وہ خوشی و غمی، اطمینان و پریشانی کے حال سے گزرتا ہے۔ خوشی و اطمینان سے اس کی زندگی پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔ یہ اثرات کبھی کبھی ذہن و دماغ پر اس قدر حاوی ہو جاتے ہیں کہ غم، بے اطمینانی اور پریشانی کے احوال اس کے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ وہ سب کچھ اپنی محنت کا ثمرہ سمجھتا ہے اور اللّٰہ رب العزت کی ذات اقدس کا خیال جاتا رہتا ہے۔ اس لیے اللّٰہ رب العزت بندے کو ابتلاء و آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، تاکہ بندہ آزمائش کے دور سے گزر کر اللّٰہ سے اور قریب ہو جائے۔ اس آزمائش سے انبیاء کرام کو بھی گزارا جاتا ہے، حالانکہ انبیاء کے دل و دماغ سے اللّٰہ رب العزت کبھی بھی غائب نہیں ہوتے۔
ہندوستان کے جو حالات اس وقت ہیں اور مسلمانوں پر جس طرح زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہو رہی ہے، یہ بھی ابتلاء و آزمائش کی ہی ایک شکل ہے۔ یہ وہ مصیبت ہے جو ہماری بد اعمالیوں کے طفیل ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ ایسے میں ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اسباب کے درجہ میں اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ ان تمام کاموں سے بچیں جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوا کرتے ہیں۔ ہم ساری خرابیوں کی جڑ بھاجپا حکومت، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اوردوسرے اہلکاروں کو دیتے ہیں، اور بھول جاتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’اعمالکم عمالکم‘ تمہارے اعمال ہی تم پر حکمراں بن کر مسلط ہو گئے ہیں۔
(تحریر: مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)