آسام میں مبینہ جہادی سرگرمیوں کا الزام عائد کر ریاستی حکومت نے گزشتہ کچھ دنوں میں تین مدارس پر بلڈوزر چلوائے، اور اب کچھ مشتعل افراد کے ذریعہ مزید ایک مدرسہ کو منہدم کیے جانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آسام کے گولپارہ ضلع واقع مدرسہ اور اس سے ملحق ایک گھر کو مقامی لوگوں نے منہدم کر دیا ہے۔ اس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہے جس میں نیم پختہ ڈھانچے پر قہر بن کر ٹوٹتے کچھ لوگ نظر آ رہے ہیں۔

اس تعلق سے پولس نے 6 ستمبر کو دعویٰ کیا کہ مغربی آسام کے گولپارہ میں واقع چار یا پھر سینڈبار کے مکینوں نے ایک مدرسہ کو منہدم کر دیا جس میں مبینہ طور پر دو ایسے مشتبہ بنگلہ دیشی شہری کام کرتے تھے جو دہشت گرد تنظیموں سے منسلک تھے۔ آسام پولس کے مطابق پکھیورا چار پر واقع داروگر الگا گاؤں کے مقامی لوگوں نے مدرسے سے متصل ایک مکان کو بھی گرا دیا۔ اس نیم مستقل ڈھانچے میں دو مشتبہ بنگلہ دیشی شہری امین الاسلام اور جہانگیر عالم رہتے تھے، جو اب فرار بتائے جا رہے ہیں۔

آسام پولس ہیڈکوارٹر کے ترجمان نے ایک انگریزی روزنامہ کو بتایا کہ ’’رضاکارانہ طور پر انہدامی کارروائی ان جہادی سرگرمیوں کے خلاف شدید ناراضگی کا نتیجہ ہے جو مدرسے سے چلائی جا رہی تھیں۔‘‘ غور طلب ہے کہ مبینہ طور پر ہندو مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے والے کسی مدرسہ کو رضاکارانہ طور پر مسمار کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔