یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول میں نیا نیا وارد ہوا تھا۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تدریس کا مرحلہ یوں بھی آسان نہیں ہوتا۔ لیکن دہلی جیسے شہر میں ضروریات زندگی کے پیش نظر یہ چیلنج قبول کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال، میں بفضل الٰہی جلد ہی وہاں کے ماحول میں ڈھل گیا۔ جن اساتذہ نے دست تعاون دراز کر مجھے اسکول کے ماحول میں ایڈجسٹ کرنے اور وہاں کے تعلیمی نظام کو سمجھنے میں میری رہنمائی فرمائی، ان میں ڈاکٹر حیدر علی اور اختر علی کے نام خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
اکاؤنٹس ٹیچر کی حیثیت سے اختر سر طلبا میں بہت مقبول تھے۔ ایک دفعہ میں انٹرنس امتحان کی ڈیوٹی پر تھا جب دوسرے سینٹر کا بچہ غلطی سے میرے روم میں بیٹھ گیا۔ میں نے اس کا ایڈمٹ کارڈ چیک کیا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ میں نے فوراً اختر سر کو فون کیا۔ انھوں نے اطمینان سے میری بات سنی اور پھر اس بچے کی او ایم آر شیٹ الگ سے جمع کر اس کے امتحان سینٹر روانہ کر دی۔ میں حیرت و استعجاب کی تصویر بنا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس دن سے اختر سر کے لیے میرے دل میں احترام کا جذبہ اور بڑھ گیا۔
قوم کے بچوں کا مستقبل کس طرح روشن و تابناک ہو، اس فکر میں ہمیشہ گرفتار رہنے والے اختر سر گزشتہ مہینے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ بچوں کی تعلیم کا نقصان نہ ہو اس خیال سے وہ آج بھی اعزازی طور پر اسکول کو اپنی خدمات دے رہے ہیں۔
(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، دہلی)