ایران میں بغیر حجاب سڑکوں پر نکلنا قابل سزا جرم ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ 17 ستمبر سے بڑی تعداد میں خواتین سڑکوں پر نکل کر اپنا حجاب (ہیڈ اسکارف) اتار رہی ہیں، انھیں ہوا میں لہرا رہی ہیں، اور کچھ خواتین اسے پھینکتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ خواتین دراصل حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کر رہی ہیں کیونکہ مہسا امینی نامی 22 سالہ خاتون کو صرف اس لیے موت کی نیند سلا دیا گیا کیونکہ وہ کھلے سر تہران کی سڑک پر گھوم رہی تھی۔
دراصل مہسا امینی کو پولس نے 13 ستمبر کو گرفتار کیا تھا اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طبیعت خراب ہونے کے بعد اسے اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ وہ کوما میں چلی گئی تھی، لیکن پھر صحت مند نہیں ہو سکی اور 16 ستمبر کو اس کا انتقال ہو گیا۔ حالانکہ امینی کے اہل خانہ اور مقامی لوگوں کے مطابق پولس بربریت کی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔ امینی کی موت کی خبر پھیلتے ہی سینکڑوں کی تعداد میں جگہ جگہ سماجی تنظیموں اور یونیورسٹیوں کی طالبات کا حکومت اور حجاب کے خلاف مظاہرہ شروع ہو گیا۔ یہ نظارہ اتوار کے روز بھی دیکھنے کو ملا۔
مظاہروں کے دوران امینی کے قاتلوں کو سزا دینے اور حجاب کی لازمیت ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ خواتین ’ڈیتھ ٹو ڈکٹیٹر‘ (تاناشاہ کو موت) اور ’جسٹس ٹو امینی‘ (امینی کو انصاف) کا نعرہ لگا رہی ہیں۔ اس درمیان ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے وزارت داخلہ سے کہا ہے کہ وہ امینی کی موت سے متعلق جانچ کرے۔