جس ملک میں مختلف مذاہب، تہذیب و ثقافت اور کلچر کے لوگ بستے ہوں، وہاں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان بقائے باہم کے اصول کے تحت ایک دوسرے کا اکرام و احترام ضروری ہے۔ مسلمان اس رواداری میں کہاں تک جا سکتا ہے اور کس قدر اسے برت سکتا ہے، یہ وہ سوال ہے جو ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ماحول میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس سوال کے جواب سے ناواقفیت کی بنیاد پر سوشل میڈیا، ٹی وی اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر غیر ضروری بحثیں سامعین، ناظرین اور قارئین کے ذہن و دماغ کو زہر آلود کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اس آلودگی سے محفوظ رکھنے کی یہی صورت ہے کہ رواداری کے بارے میں واضح اور صاف موقف کا علم لوگوں کو ہو۔
اسلام میں رواداری کا جو مفہوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے، خندہ پیشانی سے ملا جائے، ان کے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔ وہ ضرورت مند ہوں تو ان کی مالی مدد بھی کی جائے اور صدقات نافلہ اور عطیات کی رقومات سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے۔ کسی کو حقیر سمجھنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا اکرام انسانیت کے خلاف ہے۔ اس لیے معاملہ تحقیر کا نہ کیا جائے اور نہ کسی غیر مذہب کا مذاق اڑایا جائے۔ معاملات کی صفائی ہر کس و ناکس کے ساتھ رکھا جائے۔ دھوکہ دینا ہر حال میں اور ہر کسی کے ساتھ قابل مذمت ہے، اسے اسلام نے پسند نہیں کیا۔
(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)