اردو کے معروف غزل گو شاعر کلیم عاجز کی زندگی کا تنقیدی مطالعہ کریں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئے گی کہ ان کے یہاں عاجزی و انکساری اور تواضع بدرجہ اتم موجود تھی۔ شاعروں و ادیبوں کے بارے میں عام مشاہدہ ہے کہ ان کے اخلاقی معاملات اچھے نہیں ہوتے، مگر کلیم عاجز جیسے درویش صفت شاعر کی اخلاقیات اس عمومی مشاہدہ سے بہت بلند تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں جو غیر معمولی اذیتیں برداشت کیں، اس نے انھیں انسانی قدروں کا ایسا امین بنا دیا جو اپنے فرائض منصبی ادا کرتے وقت عاجزی و انکساری کی زندہ تصویر بن جایا کرتا تھا۔
اسی نوعیت کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے پروفیسر عبدالصمد لکھتے ہیں کہ ایک بار کلیم عاجز بہار شریف کی ایک گلی سے گزر رہے تھے۔ اچانک ایک شخص کو دیکھ کر ٹھٹک گئے۔ کرتا لنگی میں ملبوس وہ ایک عام سا آدمی تھا۔ ایک آدھ منٹ انھوں نے غور سے دیکھا پھر دوڑ کر اس سے لپٹ گئے۔ ان کی آنکھوں سے ایک سیلاب امنڈ پڑا۔ وہ بیچارہ بدحواس سا انھیں پہچان بھی نہیں سکا۔ کافی دیر بعد پتہ چلا کہ وہ اپنے ہم وطن سے ہم آغوش ہے۔ کلیم عاجز اس کے اصرار پر اس کے خستہ حال مکان میں تشریف لے گئے۔ وہاں جناب بڑی بے تکلفی سے بیٹھ گئے۔ اس نے اپنی بساط بھر ان کی تواضع کرنے کی کوشش کی جسے بے انتہا رغبت سے انھوں نے نوش فرمایا۔
پیدا کہاں اب ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی