ہماچل پردیش کو اس وقت قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ بارش اور لینڈ سلائیڈنگ کے سبب ریاست میں تقریباً 200 افراد کی موت ہو چکی ہے۔ پہاڑوں میں شگاف پڑ رہے ہیں جس نے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس درمیان آئی آئی ٹی منڈی کے ڈائریکٹر لکشمی دھر بیہرا کا ایک بیان سرخیوں میں ہے۔ انھوں نے ہماچل میں آئی قدرتی آفت کو گوشت خوری سے جوڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مویشی کو کاٹنا بند نہیں کیا گیا تو پوری ریاست تباہ ہو جائے گی۔
لکشمی دھر کے اس متنازعہ بیان پر اب رد عمل کا دور شروع ہو گیا ہے۔ اس معاملے میں ہیلتھ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر انشومن کمار کا کہنا ہے کہ مویشیوں کو کاٹنے کے بعد اس کا جو ناقابل استعمال حصہ ہوتا ہے وہ اِدھر اُدھر پھینک دیا جاتا ہے۔ ان باقیات سے کاربن فُٹ پرنٹ نکلتے ہیں جو بلاواسطہ ماحولیات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ گلیشیر پگھلنے کی بھی وجہ بنتا ہے اور تیزابی بارش بھی ہوتی ہے۔ لیکن ہماچل میں ہو رہی تباہی کے لیے یہ تنہا ذمہ دار نہیں۔ اگر گوشت خوری سے آفت آتی تو امریکہ، یوروپ اور فرانس جیسے ممالک کو سب سے زیادہ آفات کا سامنا ہوتا۔
ڈاکٹر انشومن کا کہنا ہے کہ ہماچل میں تباہی کی سب سے بڑی وجہ درختوں کی اندھا دھند کٹائی ہے۔ بغیر منصوبہ بندی کے درختوں اور پہاڑوں کو کاٹ کر سڑکیں بنائی جا رہی ہیں، ندیوں کے راستوں پر ہوٹل اور پل بن رہے ہیں۔ اسے روکنا ہوگا۔