نئی دہلی: ’’منور رانا ہمارے عہد کے بڑے فن کار تھے۔ بغیر نقشے کا مکان، جنگلی پھول، چہرے یاد رہتے ہیں، سخن سرائے، ماں، سفید جنگلی کبوتر، کہو ظلِ الٰہی سے اور مہاجر نامہ وغیرہ جیسی کتابیں ان کی شاعرانہ حیثیت اور دیگر علمی ترجیحات کو ظاہر کرتی ہیں۔ منور رانا ان خوش نصیب شعرا میں ہیں جنھیں جیتے جی عوام و خواص نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ان کا طاقتور لب و لہجہ ہر شعبۂ زندگی کے افراد کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے اعزازی ڈائریکٹر پروفیسر شہزاد انجم نے منور رانا کے انتقال پر منعقدہ تعزیتی نشست میں کیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر واحد نظیرؔ نے کہا کہ ’’منوررانا کی ہنر مندی یہ ہے کہ انھوں نے موضوع اور فکر کی سطح پر ندرت پیدا کی اور زبان و بیان کو نہایت سادہ رکھا۔ نتیجتاً ان کے اشعار عوام و خواص دونوں طبقوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔‘‘ ڈاکٹر حنا آفریں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ منور رانا کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب، اپنی مٹی و ملک سے لگاؤ اور ماں سے متعلق جذبات و احساسات کا نمایاں اظہار ملتا ہے۔
ڈاکٹر نوشاد عالم نے کہا کہ منور رانا نے اپنی شاعری کی اساس حقیقی انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی پر رکھی ہے۔ اس تعزیتی نشست کے اخیر میں دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم منور رانا کی مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔