صحافت روزمرہ کے واقعات و حادثات اور دیگر تلازمات کا ایک منظری اظہار ہے۔ یہ روزمرہ کا روزنامچہ ہے۔ اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اردو صحافت نے اس ذمہ داری کو گزشتہ 200 برسوں میں بخوبی نبھانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے ہمارے سینے کی دھڑکنوں کو ایک مرئی شکل عطا کی ہے۔ دراصل اردو صحافت اس کشف اورعرفان سے بھی عبارت ہے جو ہمیشہ سے انسان کے باطن کو خارج کی شکل میں ایک پیکر عطا کرتی رہی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ابتدا سے اب تک اپنے محدود وسائل کے باوجود اردو صحافت نے گراں قدر قومی و ملی خدمات انجام دی ہیں۔ بلکہ محدودیت میں آفاقیت کی تلاش اردو صحافت کا ایک امتیاز خاص رہا ہے۔
اردو رسائل و جرائد اور اخبارات نے 200 برسوں کے اپنے سفر میں ایسے ایسے تابندہ نقوش قائم کیے ہیں جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ آزادی کی جنگ میں اُردو صحافت اور ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے نے توپ اور ماڈرن سائنسی آلات حرب و ضرب سے زیادہ موثر رول ادا کیا ہے۔
ان 200 برسوں کی ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اردو کی صحافتی زبان نے کبھی شعلہ تو کبھی شبنم کا کام کیا ہے۔ اردو زبان کی یہ لسانی معجزہ کاری کا نتیجہ ہے کہ ہر زبان کے صحافی اردو کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ دوسری زبانوں کی صحافت کی طرح اردو صحافت میں بھی بہت سے نامور صحافی پیدا ہوئے۔ مثلاً سرسید احمد خاں، مولوی محمد باقر، مولانا حسرت موہانی، ظفرعلی خاں، محمد علی جوہر، مولانا ابولکلام آزاد وغیرہ۔
(مضمون نگار ڈاکٹر مشتاق صدف ’تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ، تاجکستان‘ میں ویزیٹنگ پروفیسر ہیں اور روزنامہ راشٹریہ سہارا و نئی دنیا میں برسوں صحافتی ذمہ داری نبھا چکے ہیں)