نئی دہلی: ’’شارب ردولوی کی ادبی خدمات خصوصاً تنقیدی کارنامے اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ کوئی قاری ان کی آرا سے اختلاف کر سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے اسلوب میں ترسیل کا مسئلہ ہے۔ ان کی صاف، شستہ زبان اور واضح تصور ان کی تنقید کے بنیادی خصائص ہیں۔‘‘ ان خیالات کا اظہار پروفیسر خالد محمود نے شارب ردولوی کے سانحۂ ارتحال پر اردو اساتذہ اکادمی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام منعقدہ تعزیتی نشست میں صدارتی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اردو اساتذہ اکادمی کے ڈائریکٹر پروفیسر شہزاد انجم نے افتتاحی گفتگو میں اپنے استاد پروفیسر شارب ردولوی کی سوانح، شخصیت اور ادبی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر بالتفصیل روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ ’’شارب ردولوی صاحب اپنے شاگردوں کی تربیت صرف بات چیت سے نہیں بلکہ عملاً بھی کرتے تھے۔ ان کے سلوک میں استاد کی محبت اور باپ کی شفقت محسوس ہوتی تھی۔‘‘ پروفیسر شہپر رسول نے ان سے دیرینہ تعلقات کا ذکر کیا اور کہا کہ ’’ان کی ظاہری شکل و شباہت کا حسن ان کی شخصیت میں بھی موجود تھا۔ ادیب اور فنکار تو بہت ہوتے ہیں لیکن بہترین انسان کم ہوتے ہیں۔ شارب ردولوی میں یہ خصوصیت موجود تھی۔‘‘
اس موقع پر ڈاکٹر ارشاد نیازی اور ڈاکٹر واحد نظیر نے بھی پروفیسر شارب ردولوی سے متعلق اپنے خیالات ظاہر کیے۔ ڈاکٹر حنا آفریں نے شارب ردولوی، ان کی اہلیہ شمیم نکہت اور صاحبزادی شعاع فاطمہ سے مختلف ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ اس تعزیتی نشست میں متعدد اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔