’’زندگی کی حیثیت نہایت عارضی ہے لیکن انسان کے کارنامے موت کے بعد بھی اسے زندہ جاوید رکھتے ہیں۔ خصوصاً شخصیت کا تعلق اگر علم سے ہو تو اس کی تحریریں اسے مرنے نہیں دیتیں۔ پروفیسر اصغر عباس ایک مستند ادیب، مشفق استاد اور مخلص انسان تھے۔ ان کا سانحۂ ارتحال یقیناً صدہا قارئین، تلامذہ اور احباب کے لیے روح فرسا ہے۔ وہ سرسید شناس، مدبر، دانشور اور انتہائی محبت و خلوص سے بھرے پرے انسان تھے۔‘‘

یہ باتیں پروفیسر شہزاد انجم، اعزازی ڈائریکٹر، اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پروفیسر اصغر عباس کی وفات پر اکادمی میں منعقد تعزیتی نشست میں کہیں۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ اصغر عباس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، شعبۂ اردو کے چیئرمین، سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دینے کے بعد اس ادارے سے 2002 میں سبکدوش ہو گئے تھے اور اپنے علمی کاموں میں مصروف رہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سرسید سے ان کا والہانہ رشتہ تھا۔

اس موقع پر ڈاکٹر واحد نظیر نے کہا کہ ’’بہترین استاد کبھی مرتا نہیں۔ موت سے پہلے ہی وہ خود کو جملہ خصائص کے ساتھ اپنے شاگردوں میں منتقل کر دیتا ہے، اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر حنا آفریں نے ان سے شاگردی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’پروفیسر اصغر عباس نہایت مشفق استاد تھے۔ دورانِ تدریس وہ ان پہلوﺅں پر خصوصی روشنی ڈالتے جن سے طلبہ کی ذہنی تربیت ہو سکے۔‘‘ اس تعزیتی نشست میں ڈاکٹر نوشاد عالم، شائستہ صفدر، راغب علی جمالی اور محمد تحسین خان وغیرہ بھی شریک ہوئے۔