چین میں ایغور مسلموں کے خلاف ہو رہے مظالم کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایغور نسل کو ختم کرنے کے لیے چین ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے اور ظلم کی نئی نئی عبارتیں لکھی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت کئی بڑے اداروں نے اپنی رپورٹس میں ایغور مسلموں پر چینی مظالم کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ مظالم مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی ہو رہے ہیں۔ انھیں ڈٹینشن سنٹرس میں قیدی بنا کر رکھا گیا ہے اور غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے۔ اس درمیان ایغور مسلم خواتین کے ساتھ ایک نئے ظلم کی داستان سامنے آ رہی ہے۔

ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایغور مسلم خواتین کی شادی جبراً غیر مسلموں سے کرائی جا رہی ہے۔ رپورٹ واشنگٹن واقع ایک ایڈووکیسی گروپ نے جاری کی ہے۔ اس کے مطابق ایغور خواتین کی مشرقی ترکستان میں جبراً بین المذہبی شادی کرائی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان مسلم خواتین کی شادی ہان مردوں سے کرائی جا رہی ہے جو کہ ایک چینی طبقہ ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی انسانی ذاتوں میں شامل ہے۔

دراصل چینی ریاست شنجیانگ میں ایغور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چینی حکومت انھیں ناپسند کرتی ہے اور اس طبقہ کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ایغور مسلم خواتین کی جبراً نس بندی کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اب مسلم خواتین کی غیر مسلم مردوں سے شادی، ایغور مسلموں کو ختم کرنے کا نیا راستہ معلوم پڑ رہا ہے۔