آسام اور اتر پردیش سے یہ خبر مسلسل آ رہی ہے کہ مدارس اسلامیہ کی عمارت پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے۔ آسام میں چار مدارس کی عمارت منہدم کی جا چکی ہے۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے۔ اتر پردیش سرکار نے تمام مدارس کے سروے کا حکم جاری کر دیا ہے اور بہار میں بھی بی جے پی کے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے سروے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔
ٹی وی والے بہار کے مدارس اسلامیہ میں جا کر اساتذہ و طلبہ سے سوالات کر کے وہاں کے معیار تعلیم کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ ٹی وی اینکر عربی، فارسی اور اردو سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں۔ انہیں انگلش-ہندی کی جانکاری ہوتی ہے، اس لیے وہ طلبہ سے انگریزی کے سوالات پوچھتے ہیں اور بچے غلطیاں کرتے ہیں۔ پھر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس طرح مدارس اسلامیہ کی تعلیم سے عوام کا اعتماد بھی اٹھ رہا ہے اور سرکار کو مدارس اسلامیہ پر شکنجہ کسنے کا جواز فراہم ہو رہا ہے۔
موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ملی تنظیموں کے ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ مدارس اسلامیہ علم و فن کی ترویج و اشاعت، تعلیم و تربیت کی تاریخی و مثالی خدمات کو باقی رکھ سکیں۔ اس سلسلہ میں حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم فکر مند ہیں اور ارباب مدارس کے رابطہ میں ہیں۔ جلد ہی اس سلسلہ میں کوئی مضبوط لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)