تاج محل، قطب مینار، گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ تو ان دنوں سرخیوں میں ہے ہی، ایک اور مسجد ہے جس پر تنازعہ زوروں سے چل رہا ہے۔ اس مسجد کا نام ہے ’مسجد کمال مولانا‘۔ مدھیہ پردیش کے بھوج شالہ میں موجود اس مسجد پر بھی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اندور ہائی کورٹ میں گزشتہ 2 مئی کو ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔ اس میں بھوج شالہ کو مکمل طور پر ہندوؤں کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کچھ ثبوت بھی عدالت کے سامنے پیش کیے گئے ہیں۔
دراصل تنازعہ کی شروعات 1902 کی بتائی جاتی ہے۔ اس وقت دھار کے ایجوکیشن سپرنٹنڈنٹ کاشی رام لیلے نے مسجد کے فرش پر سنسکرت کے الفاظ لکھے ہونے کا دعویٰ کیا اور اسے ’بھوج شالہ‘ بتایا۔ تنازعہ کا دوسرا مرحلہ 1935 میں شروع ہوا جب دھار کے مہاراج نے عمارت کے باہر تختی لگوائی جس پر بھوج شالہ اور مسجد کمال مولانا لکھا تھا۔
بھوج شالہ ’اے ایس آئی‘ کی نگرانی میں ہے اور اس نے ہندوؤں کو یہاں ہر منگل اور وسنت پنچی پر پوجا کرنے اور مسلمانوں کو ہر جمعہ کو نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ یہاں 2006، 2013 اور 2016 میں جمعہ کے دن وسنت پنچمی پڑنے پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔ 800 سال قدیم اس بھوج شالہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں 1997 سے پہلے ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت نہیں تھی، انھیں صرف دَرشن کی اجازت تھی۔