سپریم کورٹ میں ایک مسلم خاتون نے ’طلاق حسن‘ کے خلاف عرضی داخل کر ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ تین طلاق کو لے کر جاری ہنگامہ 22 اگست 2017 کو اس وقت ختم ہوا تھا جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اسے جرم قرار دیا تھا۔ مسلم علماء نے بھی ایک نشست میں تین طلاق کو ’طلاق بدعت‘ کہا تھا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسلم طبقہ کے بڑے گروپ نے قبول بھی کر لیا۔ لیکن ’طلاق حسن‘ کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل عرضی نے اب ایک نیا تنازعہ شروع کر دیا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق غازی آباد کی رہنے والی مسلم خاتون بے نظیر نے یہ عرضی داخل کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کچھ مہینے پہلے بے نظیر کے شوہر نے اسے طلاق دے دیا تھا، اور اب بے نظیر ’طلاق حسن‘ کے خلاف جنگ لڑنے پر آمادہ ہیں۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلم لڑکیوں کو بھی طلاق کے معاملے میں باقی مذاہب کی لڑکیوں جیسے اختیارات ملنے چاہئیں۔

غور طلب ہے کہ طلاق دینے کے تین طریقے ہیں (1) احسن، (2) حسن، (3) بدعی۔ طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق ایک ایسے طہر میں دے جس میں بیوی سے مجامعت (صحبت) نہ کی ہو اورعدت گزرنے تک اسے چھوڑ دے۔ طلاق حسن کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو تین طہر میں تین طلاق دے۔ طلاق بدعی یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق ایک ہی کلمہ میں دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے۔