آسام میں ’میا مسلم‘ اور ’میا میوزیم‘ کو لے کر گزشتہ کچھ دنوں میں کافی ہنگامہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس تنازعہ کے درمیان کانگریس کے معطل رکن اسمبلی شرمن علی نے دعویٰ کیا ہے کہ میا مسلم طبقہ آسامی سماج کا اٹوٹ حصہ ہے۔ علی نے آسام حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ میا مسلم کو منظوری فراہم کرے۔
شرمن علی کا کہنا ہے کہ پورے آسام میں ’میا‘ آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ یہ برہمپتر اور اس کی معاون ندیوں کے جزائر اور ساحلوں کے کنارے بسے ہوئے ہیں۔ علی کے مطابق یہ بنگالی زبان بولنے والے مسلمان ہیں جو الگ الگ اوقات میں بنگلہ دیش سے آسام آ گئے تھے اور یہ خود کو ’میا‘ کہتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں آل انڈیا میا کونسل نے آسام کے گولپاڑہ ضلع واقع دپکربھتا لکھی پور علاقہ میں وزیر اعظم رہائش منصوبہ کے تحت تیار ایک گھر میں ’میا میوزیم‘ قائم کیا تھا۔ اس کا افتتاح تو اچھے ماحول میں ہوا، لیکن پھر جلد ہی یہ تنازعات کا شکار ہو گیا۔ افتتاح کے 2 دنوں کے اندر ہی اسے انتظامیہ کے ذریعہ سیل کر دیا گیا۔ دراصل آسامی سماج ’میا میوزیم‘ کو اپنی شناخت کے لیے خطرہ بتا رہا ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے بھی اس میوزیم پر اعتراض کیا اور کہا کہ میوزیم میں لنگی کے علاوہ کچھ بھی میا طبقہ سے متعلق نہیں ہے۔ تنازعہ کے بعد گولپاڑہ ضلع انتظامیہ نے میا کونسل کے تین افسران کو گرفتار بھی کیا ہے۔