آسام کے موریگاؤں ضلع میں 4 اگست کی صبح مفتی مصطفیٰ کے ذریعہ چلائے جا رہے جمیع الہدیٰ مدرسہ پر بلڈوزر چلا دیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ مفتی مصطفیٰ پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ گزشتہ دنوں مفتی مصطفیٰ کو بنگلہ دیش واقع دہشت گرد تنظیم انصار اللہ بنگلہ ٹیم (اے بی ٹی) اور اے کیو آئی ایس کے ساتھ روابط کا پتہ چلنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اس درمیان آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے مدارس کے خلاف کی جا رہی کارروائی کو درست ٹھہراتے ہوئے کہا کہ آسام اسلامی شدت پسندوں کا اڈہ بنتا جا رہا ہے۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا کہ ریاست میں 800 سرکاری مدارس کو پہلے ہی بند کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ ہیمنت بسوا سرما کا کہنا ہے کہ ریاست میں کئی قومی مدارس ہیں جہاں تعلیمی سلسلہ جاری ہے۔ انھوں نے شہریوں اور سرپرستوں سے گزارش کی ہے کہ وہ مدارس کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہاں کس طرح کے سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ آسام میں مبینہ مسلم شدت پسندی کے خلاف لگاتار کارروائی ہو رہی ہے۔ 12 جولائی کو ڈبروگڑھ ضلع انتظامیہ نے سماجی کارکن ونیت بگریا کو خودکشی کے لیے اکسانے کے ملزم بیداللہ خان کا گھر بلڈوزر سے منہدم کر دیا تھا۔ 7 جولائی کو بگریا اپنے گھر پر مردہ پائے گئے تھے۔ آسام پولس نے بیداللہ خان، نشانت شرما، سنجے شرما اور اعزاز خان پر انھیں خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام لگایا تھا۔