دوشنبہ، تاجکستان: 30 ستمبر کو شعبہ ہندی-اردو، تاجک نیشنل یونیورسٹی کے زیر اہتمام ’راجندر سنگھ بیدی: شخصیت اور ادبی خدمات‘ کے موضوع پر ایک خصوصی لکچر کا انعقاد عمل میں آیا جسے پروفیسر مشتاق صدف نے پیش کیا۔ اپنے لکچر میں انہوں نے کہا کہ بیدی کا شمار پریم چند کے بعد کے ممتاز ترین تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ دراصل بیدی، منٹو اور کرشن چندر اردو افسانہ نگاری کی تثلیث ہیں۔ یہ تین بڑی ایسی شخصیتیں ہیں جنہوں نے فن افسانہ کو نیا اسلوب و آہنگ دیا۔ بیدی کا سماجی سروکار بہت گہرا اور معنی خیز ہے، جس کی تازگی کا احساس اور تاثر دیر تک قائم رہتا ہے۔
تاجک نیشنل یونیورسٹی میں ہندی-اردو، آئی سی سی آر چیئر میں وزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صدف نے یہ بھی کہا کہ بیدی نے جس طرح مطالعے کو تخلیق کی سرحدوں سے جوڑا ہے وہ انہی کا کمال ہو سکتا ہے۔ درحقیقت بیدی کی تخلیقات میں جوہر معنی تک رسائی کے لیے ان کی کہانیاں بار بار مطالعے کا تقاضا کرتی ہیں۔ بیدی سوچتے زیادہ اور لکھتے کم تھے، اور یہ ان کی کامیابی تھی کہ کم لکھا اور اچھا لکھا۔ بیدی کے یہاں نفسیاتی اور سماجی حقیقت نگاری جس قدر تحسین طلب ہے اسی طرح علامتی اور اساطیری تخیئل آفرینی کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے۔
اس محفل کی صدارت پدم شری پروفیسر رجب حبیب اللہ نے فرمائی۔ صدر شعبہ ڈاکٹر قربانوف حیدر نے ابتدائی کلمات سے نوازا۔ اس موقع پر اساتذہ میں ڈاکٹر علی خان اور ڈاکٹر یوروا صباحت کے علاوہ متعدد طلبا و طالبات بھی موجود تھے۔