پاکستان کی مشہور گلوکارہ نیرہ نور طویل علالت کے بعد دنیا کو الوداع کہہ گئیں۔ ان کی نماز جنازہ 21 اگست کو کراچی واقع امام بارگاہ یثرب میں ادا کی گئی۔ اس موقع پر فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی شخصیات بھی موجود تھیں۔ نیرہ نور کے انتقال کی خبر ان کے بھتیجے نے سوشل میڈیا کے ذریعہ دی تھی جس کے بعد ہند-پاک اور دنیا کے دیگر ممالک میں موجود ان کے شیدائیوں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔
غور طلب ہے کہ نیرہ نور کی پیدائش 3 نومبر 1950 کو ہندوستانی ریاست آسام کے شہر گواہاٹی میں ہوئی تھی۔ تقریباً 10 سال کی عمر میں ان کی فیملی پاکستان ہجرت کر گئی۔ ایک انٹرویو میں نیرہ نے بتایا تھا کہ گواہاٹی میں ان کے گھر کے پاس ہی کچھ لڑکیاں صبح سویرے گھنٹیاں بجاتی تھیں اور بھجن گاتی تھیں جسے سننا بہت اچھا لگتا تھا۔ نیرہ نے کہا تھا ’’میں خود کو روک نہیں پاتی تھی۔ بیٹھ کر سنتی رہتی تھی، تب تک جب تک وہ چلی نہیں جاتی تھیں۔‘‘
نیرہ نور نے ریڈیو پاکستان سے گلوکاری کا آغاز کیا تو اس وقت وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی طالبہ تھیں۔ انھوں ’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا‘، ’کہاں ہو تم چلے آؤ‘، ’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘ اور ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ جیسے نغمے گائے۔ مرزا غالب اور فیض احمد فیض کی تخلیقات کو بھی انھوں نے آواز دی۔ نیرہ کی سحر انگیز آواز کے سبب ہی انھیں ’بلبل پاکستان‘ کا لقب دیا گیا تھا۔