مدرسہ کی تعلیم کا ایک مزاج ہے، اس تعلیم کے کچھ مقاصد ہیں۔ ان مقاصد اور مزاج کو ترک کر کے مدرسہ اپنی حیثیت کھو دے گا۔ دوسرے علوم کے میدان میں لگ جانے کی وجہ سے کم از کم ان مقاصد سے دور ہو جائے گا، جس کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا۔ اس مسئلہ کو اس نقطۂ نظر سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ راجندر سنگھ سچر کمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جتنے مسلم لڑکے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان میں صرف 4 فیصد وہ ہیں جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں۔ 96 فیصد لڑکے کالج، اسکول اور یونیورسیٹیوں میں پڑھتے ہیں۔

یہ 96 فیصد مسلم طلبا جنہیں روزی روٹی کے لیے پڑھایا جاتا ہے، یہ فارغ ہو کر پیشہ ورانہ کاموں کے لیے موٹی تنخواہ لیتے ہیں۔ پھر بھی وہ مسلمانوں کی معاشی بدحالی دور کرنے میں ناکام ہیں۔ مسلمان آج بھی مفلسی اور پسماندگی کی زندگی گزار رہا ہے۔ پھر بھلا ان 4 فیصد کو بھی انہیں کاموں میں لگا دیا گیا تو کون سا انقلاب آجائے گا۔

جب سارے علوم میں اسپیشلائزیشن اور تخصص کو ضروری سمجھا جا رہا ہے تو پھر دینی علوم میں ان 4 فیصد کو تخصص کے لیے کیوں نہیں چھوڑا جاتا۔ یہ ہماری مذہبی ضرورت ہے، ان سے مسجد کے منبر و محراب آباد ہیں۔ گاؤں اور محلوں کا سروے کر لیجیے، ایک آدمی ایسا نہیں ملے گا، جو کسی دوسرے کام سے لگا ہوا ہو اور پابندی سے مسجد کی امامت اور بچوں کی بنیادی دینی تعلیم کے لیے وقت نکال رہا ہو۔

(تحریر: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ)