جب میں چھوٹی تھی تو سوچتی تھی کہ آسمان سے زمین کیسی دکھائی دیتی ہوگی۔ پریوں کی کہانی سنتی تو لگتا تھا جیسے پنکھ ہوتے تو آسمان میں دور تک اڑتی رہتی۔ میرا ایک خواب تھا کہ بہت سارے ننھے بچوں کے ساتھ آسمان میں اڑتی، زمین دیکھتی۔ پھر بچپن گزر گیا اور میں بڑی ہو گئی۔ ہوائی جہاز کا سفر جب پہلی بار کیا اور اونچائی سے زمین کو دیکھا تو دلکش اور حیرت انگیز نظارے دیکھنے کو ملے۔
بچہ ہونے کا احساس اور بچپن کے خواب سبھی کے پاس ہوتے ہیں۔ لیکن کئی بچوں کو بڑے ہونے کا موقع نہیں مل پاتا۔ اگر بچپن میں کوئی لاعلاج بیماری ہو جائے تو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ ممبئی واقع ادارہ ’کینسر پیشنٹس ایڈ ایسو سی ایشن‘ ایسے بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس کی سربراہ نیتا مورے نے مجھے ایک خط لکھ کر بتایا کہ کچھ بچے ہیں جن کی زندگی کے کچھ ہی دن باقی بچے ہیں۔ بچوں کی آخری خواہش ہے کہ وہ آسمان کی سیر کرتے۔ میں خط پڑھ کر آبدیدہ ہو گئی۔ پھر میں نے بچوں کی آخری خواہش پوری کرنے کا فیصلہ کیا۔
آزادی کے امرت مہوتسو پر میں نے 50 سیٹر چارٹر ہوائی جہاز کی بکنگ کی اور ممبئی ایئرپورٹ سے جہاز نے پرواز بھری۔ جہاز میں 27 کینسر متاثرہ بچے تھے جن کی خوشی دیکھ میں جذباتی ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا، اور پھر ایسا لگا جیسے کئی بچوں کے ساتھ آسمان کی سیر کرنے کا میرا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو گیا۔
(تحریر: ڈاکٹر نوہیرا شیخ، قومی صدر، آل انڈیا مہیلا امپاورمنٹ پارٹی)