اسکولوں میں ہر جگہ کلاس شروع ہونے سے پہلے بوقت صبح دعائیہ جلسہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ دعائیں سبھی اسکولوں میں الگ الگ ہوتی ہیں، اور کئی اسکولوں میں ایک طرح کی دعائیں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں۔ جھارکھنڈ میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیا ہے جہاں برسوں سے اسکول میں پڑھائی جا رہی دعاء کو مسلم طبقہ نے دباؤ بنا کر تبدیل کرایا۔ جب یہ خبر جھارکھنڈ کے وزیر تعلیم جگرناتھ مہتو کو ملی تو انھوں نے ڈپٹی کمشنر کو سخت کارروائی کی ہدایت دے ڈالی۔

دراصل کچھ میڈیا رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ گڑھوا ضلع واقع کورواڈیہہ کے مڈل اسکول میں پرنسپل یوگیش رام پر گاؤں کے کچھ لوگوں نے دباؤ بنایا کہ وہ اسکول میں برسوں سے پڑھائی جا رہی دعاء کو بدل دیں۔ یہ دباؤ اس لیے بنایا گیا کیونکہ علاقے میں 75 فیصد آبادی اقلیتی طبقہ کی ہے، اور مسلمانوں کا کہنا تھا کہ زیادہ آبادی کو دیکھتے ہوئے ان کی پسند کی دعاء پڑھائی جانی چاہیے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق اسکول میں پہلے ’دیا کر دان‘ دعاء پڑھائی جاتی تھی، لیکن گاؤں والوں کے دباؤ کے بعد ’تو ہی رام ہے، تو رحیم ہے‘ دعاء پڑھائی جانے لگی۔ 4 ماہ سے یہ تبدیل شدہ دعاء پڑھائی جا رہی ہے اور جب پرنسپل نے اس کی جانکاری پنچایت کے مکھیا اور محکمہ تعلیم کے افسران کو دی تو یہ خبر ہر طرف پھیل گئی۔ وزیر تعلیم نے اس سلسلے میں واضح لفظوں میں کہا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں کسی بھی طرح کی باہری مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔