چین میں مسلم خواتین پر مظالم سے متعلق ایک ایسی خبر سامنے آئی ہے جسے جان کر دنیا حیران ہے۔ 12 اکتوبر کو ریلیز ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ چین میں مسلم خواتین کے وہاٹس ایپ چلانے پر پابندی ہے۔ یہ انکشاف ’اِن دی کیمپس: چائناز ہائی-ٹیک پینل کالونی‘ نامی کتاب سے ہوا جس میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ کتاب مسلم طبقہ سے جڑے ایشوز پر مبنی ہے اور ایغور مسلمانوں سے متعلق بھی کئی باتیں بتائی گئی ہیں۔
کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین حکومت نے مسلم خواتین کے وہاٹس ایپ چلانے پر روک لگا دی ہے۔ چین وہاٹس ایپ چلانے والی مسلم خواتین کو ’پری-کریمنل‘ بتا کر حراست میں لے رہا ہے۔ اس کتاب میں واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک مسلم طالبہ ویرا زوؤ کی مثال پیش کی گئی ہے۔ ویرا کو ورچوئل پرائیویٹ نیٹورک (وی پی این) کا استعمال کر اپنے اسکول کے جی-میل اکاؤنٹ کو کھولنے کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔ کتاب میں ویرا کے علاوہ مزید 11 مسلم خواتین کا تذکرہ ہے جنھیں پولس نے پری-کریمنل کہا ہے۔
ویرا زوؤ سے متعلق کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ اس سے کہا گیا تھا کہ انھیں ری-ایجوکیشن کلاس بھیجا جا رہا ہے، لیکن قید کر لیا گیا۔ ویرا زوؤ کے مطابق وہ تقریباً 6 ماہ تک قید میں رہیں اور سال 2018 میں نیا سال قید میں ہی گزارا تھا۔ انھیں اس شرط پر آزاد کیا گیا کہ وہ سوشل اسٹیبلٹی ورکر کو رپورٹ کریں گی۔