گجرات ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے ذریعہ اس سال سے ماسٹر آف آرٹس اِن ہندو اسٹڈیز کورس پڑھائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اعلان کے بعد سے ہی تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ کئی لوگ گجرات ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں اس طرح کا کورس شروع کیے جانے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ دراصل گجرات میں یہ پہلی بار ہے جب ہندو اسٹڈیز سے متعلق ایم اے کا کورس شروع ہو رہا ہے۔ اس پوسٹ گریجویٹ پروگرام میں ہندو فلسفہ، ہندوستانی تاریخ، ثقافت، گیتا، اُپنشد، وید اور کچھ دیگر موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ دو سالہ اس کورس میں 4 سیمسٹرس ہوں گے اور پورے کورس کی فیس صرف 25 ہزار رکھی گئی ہے۔ ہندو اسٹڈیز کورس کی حامی ڈاکٹر شروتی کا کہنا ہے کہ ’’ماضی میں ہمیں صرف برطانوی اور مغل حکومت کے بارے میں پڑھایا گیا ہے۔ بہت سارے ہندو جنگجوؤں کے بارے میں ہمیں نہیں بتایا گیا۔ فراموش کیے گئے ہندو جنگجوؤں سے متعلق اہم جانکاریاں اس کورس میں جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘

ہندو اسٹڈیز کورس سے متعلق مسلم اسکالرس کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس کا روزگار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلم اسکالر دانش قریشی کا کہنا ہے کہ ’’اس طرح کی اسٹڈیز کا کیا مطلب جب ملازمت یا روزگار میں معاون و مددگار نہیں۔‘‘ حالانکہ وشو ہندو پریشد (گجرات) کے ترجمان ہتیندر سنگھ راجپوت کا کہنا ہے کہ ’’ہماری ثقافت کے بارے میں طلبا کو جانکاری ہونی چاہیے۔ آنے والی نسلوں کے لیے یہ انتہائی اہم ہے۔‘‘