’’پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو کے عظیم نقاد، محقق، ماہر لسانیات اور دانشور تھے۔ گزشتہ ساٹھ برسوں سے اردو ادب و تنقید کی دنیا میں ان کا بول بالا تھا۔ وہ اردو زبان کے سچے مجاہد اور خدمت گار تھے۔ وہ ایک عظیم ادیب، بے مثال خطیب اور بہترین منتظم تھے۔ گوپی چند نارنگ نے شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فروغ و استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا۔‘‘ ان خیالات کا اظہار اکیڈمی برائے فروغ استعداد اردو میڈیم اساتذہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈائریکٹر اور شعبۂ اردو، جامعہ کے استاد پروفیسر شہزاد انجم نے اپنے تعزیتی بیان میں کیا۔
پروفیسر شہزاد انجم نے فرمایا کہ گوپی چند نارنگ کی تصانیف ’اردو غزل اور ہندستانی ذہن و تہذیب’، ’امیر خسرو کا ہندوی کلام‘، ’ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘، ’انیس شناسی‘، ’اقبال کا فن‘، ’اسلوبیات میر‘، ’اردو افسانہ روایت اور مسائل‘، ’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘، ’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘، ’قاری اساس تنقید‘، ’ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری‘، ’ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت‘، ’اردو زبان اور لسانیات‘، ’فکشن شعریات‘ وغیرہ اردو ادب میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔
سچائی یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ اپنے عہد میں اردو زبان کے سب سے بڑے وکیل اور سفیر اردو تھے۔ انھوں نے پوری دنیا کے مختلف شہروں کا سفر کیا اور ہر جگہ اردو زبان کی شیرینی، مٹھاس اور گھلاوٹ کی باتیں کیں۔ نارنگ صاحب کا سانحہ ارتحال اردو زبان و ادب کا ایسا نقصان ہے جس کا پُر ہونا ناممکن ہے۔ آج پوری اردو دنیا ان کے انتقال سے سوگوار اور نم دیدہ ہے۔