اس وقت ہندوستان ذات پات اور مذاہب کی لڑائی میں پھنسا دکھائی دے رہا ہے۔ سبھی ہندو-مسلم اتحاد کی بات کرتے ہیں، خیر سگالی کی بات کرتے ہیں، ملک کو جوڑنے کی بات کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے پیش قدمی نہیں کرتے۔ آخر کار یہ ذمہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اٹھایا اور 150 دنوں پر مشتمل ’بھارت جوڑو یاترا‘ شروع کر دی۔ اس پیدل یاترا کو شروع ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے اور سڑکوں پر سماجی و سیاسی کارکنان کے ساتھ ساتھ عوام کی بھیڑ نے ظاہر کر دیا ہے کہ یاترا اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔ لوگ ساتھ آ رہے ہیں، اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور نفرت کی سیاست کو ٹھوکر مار رہے ہیں۔
راہل گاندھی نے جو قدم اٹھایا، وہ کوئی بھی سیاستداں اٹھا سکتا تھا۔ لیکن سبھی سوچتے رہے، اور راہل گاندھی نے ملک کو جوڑنے کے لیے یہ قدم بڑھا دیا۔ وزیر اعظم عہدہ کی خواہش تو سبھی رکھتے ہیں لیکن ممتا، کیجریوال، نتیش، شرد پوار، چندرشیکھر راؤ، اکھلیش، مایاوتی کوئی بھی ملک کو جاننے کے لیے محنت نہیں کرنا چاہتا، ملک کو محبت کے دھاگے میں باندھنا نہیں چاہتا۔ دراصل کسی کو ملک یا آئین کی فکر نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ذات پات کا استعمال کر وہ اپنے علاقے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ ان کی خود غرضی ہے، لیکن راہل گاندھی خود غرض نہیں۔ انھوں نے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے قدم بڑھا دیا ہے جس سے بی جے پی پریشان ہے۔ ٹی شرٹ اور ٹوائلٹ جیسے بیانات اس کا گواہ ہیں۔
(تحریر: محمد مزمل، جنرل سکریٹری، تمل ناڈو کانگریس کمیٹی اقلیتی سیل)