ہم جس دورِ پر آشوب میں زندگی کے روز و شب بسر کر رہے ہیں، یہ مادی اعتبار سے لاکھ ترقی یافتہ ہو لیکن اخلاقی اعتبار سے روز افزوں زوال پذیر ہے۔ دورِ جدید میں انسان مشینوں کے شہر میں آباد ہو کر خود مشین بن چکا ہے۔ انسانوں کی بھیڑ میں ہر دن انسانیت پامال ہو رہی ہے۔ ایسے موجودہ خود ساختہ ترقی یافتہ عہد میں نیکی، شرافت، اخوت، محبت اور ایثار و وفا کی باتیں قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔

اسی احساس کے پیش نظر ہم نے کالم بعنوان ’حسن اخلاق کا نمونہ‘ کا حسن آغاز کیا ہے۔ اس کالم کے تحت قارئین کو تاریخ انسانیت کی ان عظیم شخصیات سے متعارف کرایا جائے گا جنھوں نے دنیا کو احترام آدمیت اور حسن اخلاق کے معنی بتائے ہیں۔ جن کی مبارک زندگی انسانیت کی تفسیر اور کارنامے انسانیت کی پیشانی کا تاج ہیں۔ ایسے بندگانِ خدا کے تذکروں سے تعمیر حیات کے دریچے روشن ہوتے ہیں اور گمشدہ انسانی و اخلاقی قدروں کو دریافت کرنے کا شوق جنوں بھی انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔

ہماری موجودہ زندگی اخلاقی بحران کا شکار اس لیے ہے کہ ہمارے مطالعہ کی میز پر اخبار و رسائل، مخرب الاخلاق ناول اور افسانوں کی کتابیں تو ہیں، لیکن انسانی اخلاق کو بلند کرنے والی کتابیں نہیں ہوتیں۔ یہ علمی کالم اس خلا کو پر کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ ان شاء اللہ 3 جنوری (پیر) سے ہر ہفتہ آپ کے لیے حسن اخلاق کا ایک بہترین نمونہ لے کر حاضر رہوں گا۔

(تحریر: ڈاکٹر آفتاب احمد منیری، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)