نئی دہلی: ’’پروفیسر احمد شاندار بنیادی طور پر بایو انفارمیٹکس کے ایک ممتاز سائنسداں ہیں۔ اس کے باوجود وہ شعر و ادب، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کے علاوہ مختلف علوم و فنون سے بے پناہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مستقبل کی دنیا میں شعر و ادب کے امکانات روشن ہیں۔‘‘ ان خیالات کا اظہار پروفیسر احمد شاندار کی انگریزی غزلوں کے مجموعے کا اجرا کرتے ہوئے ممتاز شاعر پروفیسر شہپر رسول نے کیا۔
اس موقع پر پروفیسر شاندار کی رہائش گاہ لوٹس اسپیسیا، نوئیڈا میں شعری نشست کا بھی انعقاد کیا گیا۔ نشست کی صدارت پروفیسر شہپر رسول نے کی۔ کچھ نمونۂ کلام ملاحظہ ہوں:
اپنے مزاج ہی میں کہاں تھا قیام و نام
سب یہ سمجھ رہے تھے کہ دنیا کریں گے ہم
(شہپر رسول)
افق کو بانٹ کے بیٹھے ہیں تارے سیارے
ہوا ہے عرش بھی اب تنگ بستیوں کی طرح
(احمد شاندار)
ناخنوں میں ہاتھوں کے
پھانس کی چبھن ہوگی
ہاتھیوں کے پیروں میں
آبلے پڑے ہوں گے
ایندھنوں میں چولہوں کے
دیمکیں لگی ہوں گی
پانیوں کی رانی کو
جنگلوں کے راجہ کو
اک سیہ مرض ہوگا
(اے. نصیب خان)
ان سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے
(معین شاداب)
کہاں تھا جنگ کا میدان اور کہاں دشمن
ہم ایسی جنگ میں ہارے ہیں جو لڑی ہی نہیں
(رحمان مصور)
بھٹک رہا ہے مِرے سر کا بوجھ اٹھائے ہوئے
مِرا جنون کسی سنگ کی تلاش میں ہے
(خالد مبشر)
(پریس ریلیز)