بی جے پی اور آر ایس ایس لیڈران جب بھی مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، یا پھر اقلیتی طبقہ کے خلاف کسی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو اکثر کہتے ہیں ’ہندو خطرے میں ہے‘۔ ہندوتوا تنظیموں کی تقاریب میں بھی اس جملے، یعنی ’ہندو خطرے میں ہے‘ کو بار بار سنا جاتا ہے۔ حلال گوشت تنازعہ ہو یا پھر مندروں کے آس پاس مسلمانوں کو کاروبار کی اجازت نہ دیے جانے کا معاملہ، ’ہندوؤں کو خطرہ‘ ہونے کے پیش نظر ہی یہ پابندیاں لگ رہی ہیں۔ اس تعلق سے کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ کا ایک چشم کشا بیان سامنے آیا ہے۔ انھوں نے ’ہندو خطرے میں ہے‘ کو محض ایک جملہ قرار دیا ہے۔
دگ وجے سنگھ نے 10 اپریل کو ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں ان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو کہتے ہیں ’ہندو خطرے میں ہے‘۔ ٹوئٹ میں انھوں نے لکھا ہے ’’800 سال مسلم حاکم، 190 سال انگریزوں کی حکمرانی، 60 سال کانگریس کی حکومت، ہندو خطرے میں نہیں آیا۔ 7 سال آر ایس ایس و بی جے پی کی حکومت، ہندو خطرے میں آ گیا۔ ذرا سوچیے؟؟ کیا یہ جملہ نہیں ہے؟‘‘
دگ وجے سنگھ نے یہ بیان ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر دیا ہے۔ بی جے پی حکمراں ریاستوں کرناٹک، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، اتراکھنڈ، گجرات، یہاں تک کہ کانگریس حکمراں راجستھان میں بھی ہندوتوا تنظیمیں ہندو-مسلم اتحاد کو تار تار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ نئے تنازعات پیدا کیے جا رہے ہیں اور تشدد کی کوششیں ہو رہی ہیں۔